محبت کی کرشمہ سازیاں آواز دیتی ہیں
تری یادوں کی الھڑ شوخیاں آواز دیتی ہیں
مسافر لوٹنا چاہو تو لمحوں میں پلٹ جاؤ
تمہیں ساحل پہ ٹھہری کشتیاں آواز دیتی ہیں
ذرا سی دیر میں موسم بدلنے کا زمانہ ہے
ہوا کے بازوؤں کی چوڑیاں آواز دیتی ہیں
خزاں کے خوف سے سہمے پرندو لوٹ بھی آؤ
تمہیں پھر لہلہاتی ٹہنیاں آواز دیتی ہیں
چلے جاتے ہیں ہم اپنا لہو ایندھن بنانے کو
دھواں دیتی ہوئی جب چمنیاں آواز دیتی ہیں
میں جب بھی شب کے دامن پر کوئی سورج اگاتا ہوں
تری سوچوں کی گہری بدلیاں آواز دیتی ہیں
ذرا سی دیر کو کچھ شادماں لمحے عطا کر دو
ذرا سننا غموں کی تلخیاں آواز دیتی ہیں
شفیقؔ احباب اکثر یاد آتے ہیں ہمیں اب بھی
ہوا کے ساتھ بجتی تالیاں آواز دیتی ہیں
غزل
محبت کی کرشمہ سازیاں آواز دیتی ہیں
شفیق آصف