محبت کی علامت ہو گئی ہے
یہ کس بے کس کی رحلت ہو گئی ہے
کوئی مقصد نہیں ہے زندگی کا
ہمیں جینے کی عادت ہو گئی ہے
ابھی تک کیوں یہ پتے ٹوٹتے ہیں
ہوا تو کب کی رخصت ہو گئی ہے
کوئی طاقت دبا سکتی نہیں اب
کہ ذہنوں میں بغاوت ہو گئی ہے
جسے میں قتل کر کے خوش ہوا تھا
ہر آئینہ وہ صورت ہو گئی ہے
گریباں میں عبث کیوں جھانکتے ہو
تمہیں کیسی یہ وحشت ہو گئی ہے
عبادت اک ضرورت سے تھی پہلے
ضرورت اب عبادت ہو گئی ہے
نہیں ہے دھیان اپنی زندگی کا
کہ اب بچوں سے الفت ہو گئی ہے
ہماری زندگی ہی کیا ہے خالدؔ
عزیزوں کی امانت ہو گئی ہے

غزل
محبت کی علامت ہو گئی ہے
خالد فتح پوری