محبت کے سفر میں کوئی بھی رستا نہیں دیتا
زمیں واقف نہیں بنتی فلک سایا نہیں دیتا
خوشی اور دکھ کے موسم سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں
کسی کو اپنے حصے کا کوئی لمحہ نہیں دیتا
نہ جانے کون ہوتے ہیں جو بازو تھام لیتے ہیں
مصیبت میں سہارا کوئی بھی اپنا نہیں دیتا
اداسی جس کے دل میں ہو اسی کی نیند اڑتی ہے
کسی کو اپنی آنکھوں سے کوئی سپنا نہیں دیتا
اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن فخریؔ
کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کندھا نہیں دیتا
غزل
محبت کے سفر میں کوئی بھی رستا نہیں دیتا
زاہد فخری