محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
those that love you will not shrink
But I will be gone I think
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
----
----
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
----
----
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
hearts confusion will result
if mutually we don’t consult
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
your sorrow or a world of pain
if this be there none will remain
کہوں بے درد کیوں اہل جہاں کو
وہ میرے حال سے محرم نہ ہوں گے
----
----
ہمارے دل میں سیل گریہ ہوگا
اگر با دیدۂ پر نم نہ ہوں گے
----
----
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
even if perchance we meet
my ache for you will not deplete
حفیظؔ ان سے میں جتنا بد گماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے
when so upset with her be
will she not be annoyed with me
غزل
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
حفیظ ہوشیارپوری