محبت کا سفر ہے اور میں ہوں
وہ منظور نظر ہے اور میں ہوں
پرندہ بے رخی کا اڑ رہا ہے
وفا کا اک شجر ہے اور میں ہوں
قفس میں لے چلا صیاد مجھ کو
خیال بال و پر ہے اور میں ہوں
سفر آسان کتنا ہو گیا ہے
وہ میرا ہم سفر ہے اور میں ہوں
وہی آنگن وہی محراب و منبر
وہی دیوار و در ہے اور میں ہوں
اب ان کا غم بھی اپنا غم ہے رضوانؔ
ادھر کا حال ادھر ہے اور میں ہوں
غزل
محبت کا سفر ہے اور میں ہوں
رضوان الرضا رضوان