محبت کا جسے عرفاں نہیں ہے
وہ سب کچھ ہے مگر انساں نہیں ہے
شعور زندگی پر مٹنے والو
شعور زندگی آساں نہیں ہے
طلب کا ہاتھ بڑھتا جا رہا ہے
خیال وسعت داماں نہیں ہے
خفا بے وجہ ناصح ہو رہے ہو
تمہاری بات کچھ قرآں نہیں ہے
وہ مست حال ہے وصفیؔ کہ اس کو
غم دل ہے غم دوراں نہیں ہے
غزل
محبت کا جسے عرفاں نہیں ہے
عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی