محبت کا فسانہ ہم سے دہرایا نہیں جاتا
بس اب ہم سے فریب آرزو کھایا نہیں جاتا
یہاں تک تو مجھے دست کرم پر ناز ہے ان کے
اگر اب ہاتھ پھیلاؤں تو پھیلایا نہیں جاتا
تماشہ دیکھنے والے تماشہ بن کے رہ جائیں
بقدر درد تم سے دل کو تڑپایا نہیں جاتا
یہ عالم ہے قفس کا در کھلا ہے صحن گلشن میں
مگر صیاد کو اب چھوڑ کر جایا نہیں جاتا
مجھے دیکھو کہ غیروں کو بھی سینے سے لگاتا ہوں
مگر تم سے تو اپنوں کو بھی اپنایا نہیں جاتا
جو آنکھیں دیکھ لیتی ہیں خزاں کا دور پھر ان سے
بہاروں کا فریب رنگ و بو کھایا نہیں جاتا
میں ان کو بے رخی کا کس لئے الزام دوں جعفرؔ
اندھیرے میں تو اپنا دو قدم سایا نہیں جاتا
غزل
محبت کا فسانہ ہم سے دہرایا نہیں جاتا
جعفر عباس صفوی