EN हिंदी
محبت جادہ ہے منزل نہیں ہے | شیح شیری
mohabbat jada hai manzil nahin hai

غزل

محبت جادہ ہے منزل نہیں ہے

حمید نسیم

;

محبت جادہ ہے منزل نہیں ہے
یہ مشکل آخری مشکل نہیں ہے

دل رہرو میں ہیں کچھ اور خطرے
خیال دوریٔ منزل نہیں ہے

خرد باطل خرد پر ناز باطل
مگر یہ تو جنوں باطل نہیں ہے

یہ دل بے مہر بھی ہے بے وفا بھی
نہیں یہ دل تو میرا دل نہیں ہے

ڈراتا ہے مجھے یوں خندۂ برق
مجھے اندیشۂ حاصل نہیں ہے

میں سب کچھ جانتا ہوں اپنا انجام
مگر اظہار کے قابل نہیں ہے

میان قعر دریا ہے سفینہ
نہیں اے ناخدا ساحل نہیں ہے

یہاں مہر و وفا نادانیاں ہیں
یہ دنیا عشق کے قابل نہیں ہے

یہ ہے مرحوم امیدوں کا مدفن
کبھی دل تھا مگر اب دل نہیں ہے