محبت دل پہ کرتی ہے اثر آہستہ آہستہ
مریض غم کو ہوتی ہے خبر آہستہ آہستہ
خدا اب جانے کیا انجام ہو اس سجدہ ریزی کا
گھسا جاتا ہے تیرا سنگ در آہستہ آہستہ
جنون عشق لے آیا ہے آخر دشت غربت میں
مقدر بن گئی گرد سفر آہستہ آہستہ
کیا ہے جنبش لب نے مجھے بے حال کچھ ایسا
میں یوں تو سانس لیتا ہوں مگر آہستہ آہستہ
ابھر آئے گا اپنے وصل کا خورشید بھی اک دن
مگر ہوگی شب غم مختصر آہستہ آہستہ
بچاؤں کس طرح کچے مکاں کو تیز بارش میں
گرے جاتے ہیں سب دیوار و در آہستہ آہستہ
نہیں مرتا یکایک بے ارادہ نازنینوں پر
چھڑکتا ہوں میں جاں ان پر مگر آہستہ آہستہ
کسی کے دور رہنے سے محبت کم نہیں ہوتی
مگر برباد ہوتا ہے جگر آہستہ آہستہ
غضب ہے بزم میں تیرا یہ کیف انگیز نظارہ
ہوا جاتا ہوں خود سے بے خبر آہستہ آہستہ
مجھے کرنے لگا ہے خانماں برباد غم تیرا
وطن میں ہو گیا ہوں در بدر آہستہ آہستہ
امنڈ آئی ہے کیوں تاریک شب اطراف عالم پر
کہاں گم ہو گئے شمس و قمر آہستہ آہستہ
مظفرؔ راز پوشیدہ رہے گا کیسے محفل میں
لہو ٹپکا رہی ہے چشم تر آہستہ آہستہ

غزل
محبت دل پہ کرتی ہے اثر آہستہ آہستہ
مظفر احمد مظفر