محبت چاہتے ہو کیوں وفا کیوں مانگتے ہو
تم ان بیمار آنکھوں سے دوا کیوں مانگتے ہو
مسافر ہو تو نکلو پاؤں میں آنکھیں لگا کر
کسی بھی ہم سفر سے راستہ کیوں مانگتے ہو
انہیں تو خود ہی اپنی جان کے لالے پڑے ہیں
بے چارے شہر والوں سے ہوا کیوں مانگتے ہو
ابھی کچھ تھا ابھی کچھ ہے بدن آب رواں سا
بدن سے آج کل کا واقعہ کیوں مانگتے ہو
حدود خاک سے باہر نہیں آ پائے گا حسن
وہ جتنا ہے اسے اس سے سوا کیوں مانگتے ہو
ہجوم شہر میں سے تیر سے نکلے چلے جاؤ
ہجوم شہر سے اس کی رضا کیوں مانگتے ہو
محبت آپ ہی اپنا صلہ ہے فرحتؔ احساس
محبت کر رہے ہو تو صلہ کیوں مانگتے ہو
غزل
محبت چاہتے ہو کیوں وفا کیوں مانگتے ہو
فرحت احساس