EN हिंदी
محبت باعث نا مہربانی ہوتی جاتی ہے | شیح شیری
mohabbat bais-e-na-mehrbani hoti jati hai

غزل

محبت باعث نا مہربانی ہوتی جاتی ہے

مضطر خیرآبادی

;

محبت باعث نا مہربانی ہوتی جاتی ہے
ہماری ساری محنت دھول دھانی ہوتی جاتی ہے

حکایت ہوں جو راتوں کو ہمیشہ ہوتی رہتی ہے
شکایت ہوں جو آپس میں زبانی ہوتی جاتی ہے

ترا غم آج تک تازہ ہے ظالم ورنہ دنیا میں
نئی شے دن گزرنے سے پرانی ہوتی جاتی ہے

تمہاری یاد میں اہل جہاں مر مر کے جیتے ہیں
قضا لوگوں کے حق میں زندگانی ہوتی جاتی ہے

بڑا الزام ٹھہرا ہے تعلق رشتہ داری کا
قرابت کی محبت بد گمانی ہوتی جاتی ہے

یہی تنبیہ ملنے پر انہیں مجبور کرتی ہے
یہی تاکید گویا ضد کی بانی ہوتی جاتی ہے

مرے غم میں وہ مجبوری سے ان حالوں کو پہنچے ہیں
کہ اب ان کی نزاکت ناتوانی ہوتی جاتی ہے

ترے کوچے میں اب گردش کی صورت پڑتی جاتی ہے
زمیں کی چال دور آسمانی ہوتی جاتی ہے

مرے پہلو میں دل کب تھا لہو کی بوند تھی مضطرؔ
سو اب وہ بوند بھی قسمت سے پانی ہوتی جاتی ہے