موڑ تھا کیسا تجھے تھا کھونے والا میں
رو ہی پڑا ہوں کبھی نہ رونے والا میں
کیا جھونکا تھا چمک گیا تن من سارا
پتہ نہ تھا پھر راکھ تھا ہونے والا میں
لہر تھی کیسی مجھے بھنور میں لے آئی
ندی کنارے ہاتھ بھگونے والا میں
رنگ کہاں تھا پھول کی پتی پتی میں
کرن کرن سی دھوپ پرونے والا میں
کیا دن بیتا سب کچھ آنکھ میں پھرتا ہے
جاگ رہا ہوں مزے میں سونے والا میں
شہر خزاں ہے زردی اوڑھے کھڑے ہیں پیڑ
منظر منظر نظر چبھونے والا میں
جو کچھ ہے اس پار وہی اس پار بھی ہے
ناؤ اب اپنی آپ ڈبونے والا میں
غزل
موڑ تھا کیسا تجھے تھا کھونے والا میں
راجیندر منچندا بانی