مژگاں پہ آج یاس کے موتی بکھر گئے
ظلمت بڑھی جو رات کی تارے نکھر گئے
کیسی ضیا ہے یہ جو منور ہیں بام و در
سوئے فلک یہ کس کی فغاں کے شرر گئے
شکوے ہیں آسماں سے زمیں سے شکایتیں
الزام ان کے جور کے کس کس کے سر گئے
محفل میں آئی کس کی صدائے شکست دل
ساقی کے ہاتھ رک گئے ساغر ٹھہر گئے
سینہ فگار پھولوں سے خوشبو نکل پڑی
شبنم کے آنسوؤں سے گلستاں نکھر گئے
الجھی تھی جن میں ایک زمانے سے زندگی
کیوں اے غم حیات وہ گیسو سنور گئے
غزل
مژگاں پہ آج یاس کے موتی بکھر گئے
وحیدہ نسیم