مٹی ترے مہکنے سے مجھ کو گمان ہے
بارش کی بوند بوند میں اک داستان ہے
یہ سوچتے ہو کیوں کہ خدا بس تمہیں ملا
دیکھو جہاں زمیں ہے وہاں آسمان ہے
لگتا ہے گھر وہی جہاں آپس میں پیار ہو
ورنہ تو لوگ رہتے ہیں اور اک مکان ہے
آنکھوں کی بات چیت میں پڑنا یہ سوچ کر
نظروں کے لین دین میں دل کا زیان ہے
حیرت ہے کیسے پھول سے خوشبو ہوئی جدا
موقع ملے تو سوچنا کیا درمیان ہے
شاید کہ اور بھی کہیں بستی ہے زندگی
لگتا ہے اور بھی کہیں ایسا جہان ہے
تم ہی کہو کہ وقت سے کیوں ہار مان لوں
جب روح میں امنگ ہے دل بھی جوان ہے
انوارؔ بزم ہے سجی ہو جائے شاعری
اردو سے ہم کو عشق ہے اپنی زبان ہے
غزل
مٹی ترے مہکنے سے مجھ کو گمان ہے
سید انوار احمد