EN हिंदी
مٹی پہ کوئی نقش بھی ابھرا نہ رہے گا | شیح شیری
miTTi pe koi naqsh bhi ubhra na rahega

غزل

مٹی پہ کوئی نقش بھی ابھرا نہ رہے گا

نذیر قیصر

;

مٹی پہ کوئی نقش بھی ابھرا نہ رہے گا
گر جائے گی دیوار تو سایہ نہ رہے گا

آئے گا نظر دھوپ میں چھت پر وہ کھلے سر
گلیوں میں یہ راتوں کا نکلنا نہ رہے گا

شاخوں سے نمو پتوں سے چھن جائے گی خوشبو
کٹ جائے گا جب پیڑ تو کیا کیا نہ رہے گا

سوچوں تو کوئی لفظ ملے گا نہ ترے نام
لکھوں گا تو کاغذ کوئی سادہ نہ رہے گا

بکھرے ہوئے چہروں میں کھڑا سوچ رہا ہوں
آنکھیں نہ رہیں گی کہ تماشا نہ رہے گا

مٹ جاؤں گا لکھتے ہوئے روداد شب و روز
جب میں نہ رہوں گا مرا افسانہ رہے گا

کھو جائے گی خاموشی میں آواز جرس بھی
راہوں میں کہیں نقش کف پا نہ رہے گا

آگے بھی دکھائی نہیں دے گی کوئی منزل
اور گھر کو پلٹنے کا بھی رستہ نہ رہے گا

میں حرف ہوں لکھ لو مجھے آواز ہوں سن لو
آتے ہیں وہ دن جب کوئی مجھ سا نہ رہے گا