مٹ گئے ہائے مکیں اور مکان دہلی
نہ رہا نام کو بھی نام و نشان دہلی
سہمے سہمے نہ رہیں کیونکہ مقیمان فلک
کہ فلک ہے ہدف تیر فغان دہلی
ہم تو انسان ہیں جی کیونکہ رہے بن روئے
کہ فرشتے بھی ہوئے مرثیہ خوان دہلی
جیسے فارس میں خلاصہ ہے زبان شیراز
ویسی ہی ہند میں ہے پاک زبان دہلی
دور سے دیکھ کے ہو کیونکہ یقیں دلی کا
آ کے دلی میں ہو جب یوں ہی گمان دہلی
فرط کاہیدگئ درد سے یا رب اب تو
سب کے سب ہو گئے ہیں پیر جوان دہلی
اس کی ویرانی میں اک بات ہے دیکھو اب تک
مٹ گئے پر بھی تو باقی رہی آن دہلی
جسد چرخ نہ انجم سے بنے آبلہ وار
گر نہ ہو درپئے بربادئ شان دہلی
بسکہ ہنگامہ طلب تھا یہ وہاں پہلے سے
فتنۂ حشر بھی ہووے گا میان دہلی
جو مکیں رہ گئے بے گور و کفن مر مر کر
ڈھانپنے پر وہ گرے ان کا مکان دہلی
غالبؔ و ثاقبؔ و سالکؔ ہی نہیں ہیں غمگیں
کوکبؔ خستہ بھی کرتا ہے فغان دہلی
غزل
مٹ گئے ہائے مکیں اور مکان دہلی
تفضل حسین خاں کوکب دہلوی