EN हिंदी
مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل | شیح شیری
misl-e-hubab-e-bahr na itna uchhal ke chal

غزل

مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل

بیان میرٹھی

;

مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل
ہیں ساتھ ساتھ موج حوادث سنبھل کے چل

برگ خزاں رسیدہ سے آتی تھی یہ صدا
اس باغ سبز پر کف افسوس مل کے چل

درپئے نہنگ مرگ ہے درپیش چاہ گور
مستی نہ کر حواس میں آ مت مچل کے چل

سوتے ہیں لوگ تار ہیں کوچے گزر ہے تنگ
تاریک شب ہے ساتھ چراغ عمل کے چل

اے تن پرست جامۂ صورت کثیف ہے
بزم حضور دوست میں کپڑے بدل کے چل

آتی ہے زیر خاک سے آواز ہر قدم
افتادگان راہ کے سر مت کچل کے چل

کب تک کثافتوں میں رہے گا برنگ سرد
آب رواں کی طرح نکل اور نکل کے چل

جوں شمع تجھ کو آتش غم سے گریز کیوں
سر پر دھری ہے آگ قدم تک پگھل کے چل

جوں نخل شمع برق تجلی گرے کہیں
داغوں سے آبلوں سے بیاںؔ پھول پھل کے چل