مشعل بکف کبھی تو کبھی دل بدست تھا
میں سیل تیرگی میں تجلی پرست تھا
ہر اک کمند عرصۂ آفاق ہی پہ تھی
لیکن بلند جتنا ہوا اتنا پست تھا
تھی حوصلے کی بات زمانے میں زندگی
قدموں کا فاصلہ بھی یہاں ایک جست تھا
بکھرے ہوئے تھے لوگ خود اپنے وجود میں
انساں کی زندگی کا عجب بندوبست تھا
مرنے کے بعد عظمت و شہرت سے فائدہ
لیکن جہاں تمام ہی مردہ پرست تھا
سرمایۂ حیات تھے کچھ نقد داغ دل
سچ بات تو ہے یہ کہ بہت تنگ دست تھا
عرض نیاز شوق سے تھا بے نیاز دل
ملک ہوس میں اشکؔ اکیلا ہی مست تھا
غزل
مشعل بکف کبھی تو کبھی دل بدست تھا
ابراہیم اشکؔ