مثال شعلہ و شبنم رہا ہے آنکھوں میں
وہ ایک شخص جو کم کم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی زیادہ کبھی کم رہا ہے آنکھوں میں
لہو کا سلسلہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں
نہ جانے کون سے عالم میں اس کو دیکھا تھا
تمام عمر وہ عالم رہا ہے آنکھوں میں
تری جدائی میں تارے بجھے ہیں پلکوں پر
نکلتے چاند کا ماتم رہا ہے آنکھوں میں
عجب بناؤ ہے کچھ اس کی چشم کم گو کا
کہ سیل آہ کوئی تھم رہا ہے آنکھوں میں
وہ چھپ رہا ہے خود اپنی پناہ مژگاں میں
بدن تمام مجسم رہا ہے آنکھوں میں
ازل سے تا بہ ابد کوشش جواب ہے شاذؔ
وہ اک سوال جو مبہم رہا ہے آنکھوں میں
غزل
مثال شعلہ و شبنم رہا ہے آنکھوں میں
شاذ تمکنت