EN हिंदी
مثال سنگ پڑا کب تک انتظار کروں | شیح شیری
misal-e-sang paDa kab tak intizar karun

غزل

مثال سنگ پڑا کب تک انتظار کروں

صابر ظفر

;

مثال سنگ پڑا کب تک انتظار کروں
پگھلنے میں جو روانی ہے اختیار کروں

خبر نہیں وہاں تو کون سے لباس میں ہو
میں کیسے عالم پنہاں کو آشکار کروں

برنگ موجۂ خوشبو اڑا اڑا پھرے تو
میں اپنے قرب سے کیوں تجھ کو زیر بار کروں

میں دیکھتا ہوں اسے کیسے کیسے رنگوں میں
کشید رنگ کروں اور بار بار کروں

وہ ایک بار بھی مجھ سے نظر ملائے اگر
تو میں اسے بھی کوئی مہرباں شمار کروں

جو تو گیا ہے تو میں بھی چلا گیا گویا
اور اب بھی دشت تحیر میں خود کو خار کروں

یونہی تو میں ظفرؔ اس حال کو نہیں پہنچا
فریب دے جو مجھے اس پہ اعتبار کروں