مثال سنگ کھڑا ہے اسی حسیں کی طرح
مکاں کی شکل بھی دیکھو دل مکیں کی طرح
ملائمت ہے اندھیرے میں اس کی سانسوں سے
دمک رہی ہیں وہ آنکھیں ہرے نگیں کی طرح
نواح قریہ ہے سنسان شام سرما میں
کسی قدیم زمانے کی سر زمیں کی طرح
زمین دور سے تارا دکھائی دیتی ہے
رکا ہے اس پہ قمر چشم سیر بیں کی طرح
فریب دیتی ہے وسعت نظر کی افقوں پر
ہے کوئی چیز وہاں سحر نیلمیں کی طرح
منیرؔ عہد ہے اب آخر مسافت کا
کہ چل رہی ہے ہوا باد واپسیں کی طرح
غزل
مثال سنگ کھڑا ہے اسی حسیں کی طرح
منیر نیازی