مثال سنگ تپیدہ جڑے ہوئے ہیں کہیں
ہمارے خواب یہیں پر پڑے ہوئے ہیں کہیں
الجھ رہی ہے نئی ڈور نرم ہاتھوں سے
پتنگ شاخ شجر پر اڑے ہوئے ہیں کہیں
جنہیں اگایا گیا برگدوں کی چھاؤں میں
بھلا وہ پیڑ چمن میں بڑے ہوئے ہیں کہیں
گزر گیا وہ قیامت کی چال چلتے ہوئے
جو منتظر تھے وہیں پر کھڑے ہوئے ہیں کہیں
بلا رہا ہے کوئی شہر آرزو سے ہمیں
مگر یہ پاؤں زمیں میں گڑے ہوئے ہیں کہیں
غزل
مثال سنگ تپیدہ جڑے ہوئے ہیں کہیں
شاہین مفتی