مثال سادہ ورق تھا مگر کتاب میں تھا
وہ دن بھی تھے میں ترے عشق کے نصاب میں تھا
بھلا چکا ہے تو اک بار مجھ سے آ کر سن
وہی سبق جو کبھی تیرے دل کے باب میں تھا
جو آج مجھ سے بچھڑ کر بڑے سکون میں ہے
کبھی وہ شخص مرے واسطے عذاب میں تھا
اسی نے مجھ کو غم و سوز جاوداں بخشا
وہ ایک چاند کا ٹکڑا سا جو نقاب میں تھا
مرا وجود مجسم خلوص تھا ناصرؔ
میں پھر بھی بارگہہ حسن کے عتاب میں تھا
غزل
مثال سادہ ورق تھا مگر کتاب میں تھا
ناصر زیدی