مثال خاک کہیں پر بکھر کے دیکھتے ہیں
قرار مر کے ملے گا تو مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے خواب مکمل کبھی نہیں ہوتے
سنا ہے عشق خطا ہے سو کر کے دیکھتے ہیں
کسی کی آنکھ میں ڈھل جاتا ہے ہمارا عکس
جب آئینے میں کبھی بن سنور کے دیکھتے ہیں
ہمارے عشق کی میراث ہے بس ایک ہی خواب
تو آؤ ہم اسے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
سوائے خاک کے کچھ بھی نظر نہیں آتا
زمیں پہ جب بھی ستارے اتر کے دیکھتے ہیں
یہ حکم ہے کہ زمین فرازؔ میں لکھیں
سو اس زمین میں ہم پاؤں دھر کے دیکھتے ہیں
غزل
مثال خاک کہیں پر بکھر کے دیکھتے ہیں
حمیرا راحتؔ