مری زندگی کا یہ حال تھا یہی شکل راہ روی رہی
کہ نہ غم کا غم ہی رہا کبھی نہ خوشی کی مجھ کو خوشی رہی
نہ وہ پردہ دار ہے راز میں نہ کسی کی پردہ داری رہی
جو پڑے تھے پردے سب اٹھ گئے مگر اب بھی جلوہ گری رہی
شب ہجر گزری ہے کس طرح تمہیں کیا سناؤں یہ ماجرا
میں اجل کے سائے میں تھا کھڑا مری سر پہ موت کھڑی رہی
تری یاد میں بہت حیلہ جو یوں ہی گزرے شام و سحر مرے
کبھی دن میں آہ سے کام تھا کبھی شب میں نوحہ گری رہی
نہ کسی کے دشمن جاں ہوئے نہ کسی کو دشمن جاں کیا
یہی بات تھی کہ جو غیر سے بھی ہمیشہ اپنی بنی رہی
مری حسرتیں مرے حوصلے سب ہی جل کے خاک میں مل گئے
یہ کسی کی دی ہوئی آگ تھی جو لگی تو دل میں لگی رہی
وہ گھٹا کا زور کہاں گیا شب ماہ کیا ہوئی ساقیا
کہ نہ لطف بزم سرور ہے نہ بہار بادہ کشی رہی
یہ نوازشیں تری باغباں کہ کہیں کا میں نہیں رہ گیا
نہ وہ رنج دور خزاں رہا نہ وہ فصل گل کی خوشی رہی
مری بے کسی سے جہان میں نہ ہوا بھی کچھ تو بہت ہوا
وہی بے بسی تو رہی مگر تری یاد دل میں بسی رہی
یہ سوال کیوں یہ خیال کیا ہے وفا تو اس کا مآل کیا
یہی ذکر ورد زباں رہا یہی فکر دل کو لگی رہی
نہ مجھی کو اپنا پتہ ملا نہ تجھی کو ڈھونڈھ کے پا سکا
نہ مری خبر نہ تری خبر عجیب ایک بے خبری رہی
یہ مقام شکر ہے بے گماں رہا خوش ہی خوشترؔ خوش بیاں
نہ عطا وجود میں تھی کسر نہ کرم کی اس کے کمی رہی
غزل
مری زندگی کا یہ حال تھا یہی شکل راہ روی رہی
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی