مری زمیں پہ لگی آپ کے نگر میں لگی
لگی ہے آگ جہاں بھی کسی کے گھر میں لگی
عجیب رقص کہ وحشت کی تال ہے جس میں
عجیب تال جو آسیب کے اثر میں لگی
کواڑ بند کہاں منتظر تھے آہٹ کے
لگی جو دیر تو دہلیز تک سفر میں لگی
تمام خواب تھے وابستہ اس کے ہونے سے
سو میری آنکھ بھی بس سایۂ شجر میں لگی
حصار ذات نہیں تھا طلسم عشق تھا وہ
خبر ہوئی تو مگر دیر اس خبر میں لگی
دہکتے رنگ تھے جو آسمان چھوتے تھے
کھلے تھے پھول کہ اک آگ سی شجر میں لگی
ادھورے لفظ تھے آواز غیر واضح تھی
دعا کو پھر بھی نہیں دیر کچھ اثر میں لگی
پلٹ کے دیکھا تو بس ہجرتیں تھیں دامن میں
اگرچہ عمر یہاں اک گزر بسر میں لگی
پرند لوٹ کر آئے تھے کن زمینوں سے
کہاں کی دھول تھی جو ان کے بال و پر میں لگی
غزل
مری زمیں پہ لگی آپ کے نگر میں لگی
فاطمہ حسن