مری وفا کی مکمل تو داستاں کر دے
جہاں پہ آگ نہیں ہے وہاں دھواں کر دے
کہیں سے کوئی تمنا دعا میں آ نہ سکے
مرے خدا تو مرے دل کو بے زباں کر دے
وہ جس کے لمس سے پتھر بھی روح پا جائے
اس ایک شخص کو مجھ پر بھی مہرباں کر دے
بہت صنع ہے تیرے معجزوں کے بارے میں
مرے بھی زخم جگر کو تو کہکشاں کر دے
میں اپنے دل کی ہر ایک بات اس سے کہہ دوں گا
سنے تو سنتا رہے وہ کہے تو ہاں کر دے
یہاں پہ کچھ نہ ہو بکھری ہوئی صدا کے سوا
مرے وجود کو اجڑا ہوا مکاں کر دے
میں اپنی قبر میں زندہ پڑا ہوا ہوں عرشؔ
الگ الگ تو کوئی میرے جسم و جاں کر دے
غزل
مری وفا کی مکمل تو داستاں کر دے
وجے شرما عرش