مری طرف تری اٹھتی نگاہ تھوڑی ہے
ترے گریز میں اب اشتباہ تھوڑی ہے
چراغ جلتے رہیں گے ہوا بغور یہ سن
ہنر پہ تجھ کو ابھی دستگاہ تھوڑی ہے
ہے ایک عشق سے آمیز راستے کا سفر
ذرا سی دور بہ طرز نباہ تھوڑی ہے
جزا سزا سے کہیں ماورا ہے میرا عمل
یہ کار عشق مسلسل گناہ تھوڑی ہے
کوئی مکین نہیں کر سکے سکونت خاص
ہمارا دل ابھی ایسا تباہ تھوڑی ہے
ہوائیں اور شجر اور طائران خیال
اک آسمان ہمارا گواہ تھوڑی ہے
اب اس کے بعد سفر پارک تحیر ہے
بتا رہا ہوں تمہیں انتباہ تھوڑی ہے

غزل
مری طرف تری اٹھتی نگاہ تھوڑی ہے
محسن شکیل