مری تاریکیوں سے بھاگتا میں
تمہاری روشنی سے آ لگا میں
دیے جیسا بدن ڈھانپے ہوئے تھا
ہوا ہونے کا دم بھرتا ہوا میں
ہزاروں پیڑ ہیں اس دشت میں اور
ہزاروں میں کہیں تنہا کھڑا میں
بدن ہوں روح کے اس دائرے میں
اور اپنی روح کا ہوں دائرہ میں
ہوا میں جذب پانی سوکھ لوں گا
تمہاری خاک سے لپٹا ہوا میں
مرے سینہ سے لگ کر سو گیا وہ
اسے سینہ لگا کر جاگتا میں
ابھی دستک سنی میں نے لہٰذا
بدن کے سب دروں کو کھولتا میں
تری باتوں کو سننا بھول بیٹھا
تری باتوں میں اتنا مبتلا میں
تو جب تک ساتھ ہے میرا خدا ہے
اور اس کے باد ہوں اپنا خدا میں
غزل
مری تاریکیوں سے بھاگتا میں
نویش ساہو