مری قربتوں کی خاطر یوں ہی بے قرار ہوتا
جو مری طرح اسے بھی کہیں مجھ سے پیار ہوتا
نہ وہ اس طرح بدلتے نہ نگاہ پھیر لیتے
جو نہ بے بسی کا میری انہیں اعتبار ہوتا
وہ کچھ ایسے ڈھلتا مجھ میں کہ غم اس کے میرے ہوتے
وہ جو سوگوار ہوتا تو میں اشک بار ہوتا
مجھے چین لینے دیتی کہاں انقلابی فطرت
نہ مصاحبوں میں ہوتا نہ میں شہ کا یار ہوتا
میں اسی کے نام کرتا یہ حیات موت سب کچھ
مجھے زندگی پہ آلوکؔ اگر اختیار ہوتا
غزل
مری قربتوں کی خاطر یوں ہی بے قرار ہوتا
آلوک یادو