مری نگاہ میں لمحوں کا خواب اترا تھا
زمیں کی سطح پہ یا ماہتاب اترا تھا
وہ خاص لمحہ جسے عمر جاوداں کہئے
وہ بن کے وصل کا جام شراب اترا تھا
یہ کیسی چوک ہوئی بے خودی میں ہم سے کہ بس
تمام عمر مسلسل عذاب اترا تھا
مقابلہ کیا جس پیڑ نے ہواؤں کا
اسی پہ برق تپاں کا عتاب اترا تھا
ندی جو پیاس بجھاتی تھی سب کی صدیوں سے
خود اس کی پیاس بجھانے سراب اترا تھا
صحیفۂ غم ہستی کا جب ہوا تھا نزول
تو مجھ پہ سوز محبت کا باب اترا تھا
کرامتؔ اس کو تو جانا تھا آسماں سے پرے
وہ قافلہ جو سر آفتاب اترا تھا
غزل
مری نگاہ میں لمحوں کا خواب اترا تھا
کرامت علی کرامت