مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں
ہو اعتبار تو پھر تاب انتظار کہاں
دلوں میں فرق ہوا جب تو چاہ پیار کہاں
چمن چمن ہی نہیں آئے گی بہار کہاں
جسے یہ کہہ کے وہ ہنس دیں کہ قصہ اچھا ہے
وہ راز کھل کے بھی ہوتا ہے آشکار کہاں
امنگ تھی یہ جوانی کی یا کوئی آندھی
ملا کے خاک میں ہم کو گئی بہار کہاں
امیدوار بنانے سے مدعا کیا تھا
جب آس تم نے دلا دی تو اب قرار کہاں
ملی ہے اس لیے دو چار دن کی آزادی
کہ صرف کرتا ہے دیکھیں یہ اختیار کہاں
یہ شوق لے کے چلا ہے چمن سے شکل نسیم
کہ دیکھیں ملتی ہے جاتی ہوئی بہار کہاں
ہے ایک شرط وفا کی وہ قید بے زنجیر
سب اختیار ہیں اور کچھ بھی اختیار کہاں
مٹے نشاں پہ نظر کر کے رو جسے چاہے
ترے ستم کی ہے تربت مرا مزار کہاں
تم ایسا عہد شکن آرزوؔ سا ناامید
کہو جو سچ بھی تو آتا ہے اعتبار کہاں
غزل
مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں
آرزو لکھنوی