EN हिंदी
مری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لیے | شیح شیری
meri nazar se na ho dur ek pal ke liye

غزل

مری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لیے

قتیل شفائی

;

مری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لیے
ترا وجود ہے لازم مری غزل کے لیے

کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں چراغ سا وہ بدن
ترس گئی ہیں نگاہیں کنول کنول کے لیے

کسی کسی کے نصیبوں میں عشق لکھا ہے
ہر اک دماغ بھلا کب ہے اس خلل کے لیے

ہوئی نہ جرأت گفتار تو سبب یہ تھا
ملے نہ لفظ ترے حسن بے بدل کے لیے

سدا جیے یہ مرا شہر بے مثال جہاں
ہزار جھونپڑے گرتے ہیں اک محل کے لیے

قتیلؔ زخم سہوں اور مسکراتا رہوں
بنے ہیں دائرے کیا کیا مرے عمل کے لیے