مری محبت میں ساری دنیا کو اک کھلونا بنا دیا ہے
یہ زندگی بن گئی ہے ماں اور مجھ کو بچہ بنا دیا ہے
جسے کمی ہو وہ آ کے لے جائے میری ہستی سے اپنا حصہ
مجھے یہ لگتا ہے اس نے مجھ کو بہت زیادہ بنا دیا ہے
اسے خبر تھی کہ ہم وصال اور ہجر اک ساتھ چاہتے ہیں
تو اس نے آدھا اجاڑ رکھا ہے اور آدھا بنا دیا ہے
میں جانتا ہوں مگر مجھے اس فریب میں لطف آ رہا ہے
سراب ہے وہ جسے مری تشنگی نے دریا بنا دیا ہے
تری محبت کی خیر جس نے جلا کے خاشاک جسم و جاں کو
وہ آگ بھڑکائی جس نے پتھر کو آبگینہ بنا دیا ہے
تو اور کیا چاہیئے تمہیں اک زمین دے دی کتاب جیسی
اور آسماں پر کلام کرتا ہوا ستارا بنا دیا ہے
وہ پیر مے خانۂ فلک ان دنوں بہت مہرباں ہے مجھ پر
تو خود صراحی بنا ہوا ہے مجھے پیالہ بنا دیا ہے
غزل
مری محبت میں ساری دنیا کو اک کھلونا بنا دیا ہے
فرحت احساس