EN हिंदी
مری منزلیں کہیں اور ہیں مرا راستہ کوئی اور ہے | شیح شیری
meri manzilen kahin aur hain mera rasta koi aur hai

غزل

مری منزلیں کہیں اور ہیں مرا راستہ کوئی اور ہے

طاہر فراز

;

مری منزلیں کہیں اور ہیں مرا راستہ کوئی اور ہے
ہٹو راہ سے مری خضر جی مرا رہنما کوئی اور ہے

یہ عجیب منطق عشق ہے مگر اس میں کچھ بھی نہ بن پڑے
مرے دل میں یاد کسی کی ہے مجھے بھولتا کوئی اور ہے

مری جنبشیں مری لغزشیں مرے بس میں ہوں گی نہ تھیں نہ ہیں
میں قیام کرتا ہوں ذہن میں مجھے سوچتا کوئی اور ہے

ترے حسن تیرے جمال کا میں دوانہ یوں ہی نہیں ہوا
ہے مجھے خبر ترے روپ میں یہ چھپا ہوا کوئی اور ہے

نہیں مجھ کو تجھ سے کوئی گلہ ہے الگ طرح مرا سلسلہ
کہ ترے خدا کئی اور ہیں تو مرا خدا کوئی اور ہے