EN हिंदी
مری حیات اگر مژدۂ سحر بھی نہیں | شیح شیری
meri hayat agar muzhda-e-sahar bhi nahin

غزل

مری حیات اگر مژدۂ سحر بھی نہیں

حنیف فوق

;

مری حیات اگر مژدۂ سحر بھی نہیں
ستم یہ ہے کہ ترے غم کی رہ گزر بھی نہیں

چمن میں ہوں میں پریشان مثل موج نسیم
چٹک کے غنچے کہیں گے ہمیں خبر بھی نہیں

نشاط و کیف کے لمحوں ذرا ٹھہر جاؤ
بہار راہ میں ہے دور کا سفر بھی نہیں

میں تیری جنبش مژگاں سے کانپ جاتا ہوں
اگرچہ دل کو غم دو جہاں سے ڈر بھی نہیں

فریب وعدہ پہ ہم تا ابد جئیں لیکن
ہزار حیف یہ امکان عمر بھر بھی نہیں

کوئی تو ہمدم دیرینہ دے صدا اس دم
وہ اجنبی ہوں کہ مانوس اپنا گھر بھی نہیں

نسیم سر بہ گریباں صبا ہے سر گرداں
وہ وقت ہے کوئی خوشبو کا راہبر بھی نہیں

زمین پر ہی کہیں نور کا سراغ لگاؤ
ستارے ڈوب گئے چرخ پر قمر بھی نہیں

کٹی ہے آنکھوں ہی آنکھوں میں شام ہجر مگر
شب دراز الم اتنی مختصر بھی نہیں

کسی کی نرم نگاہی کی آنچ ہے ورنہ
یہ دل پذیر نوا جلوۂ ہنر بھی نہیں

ہوائے شام سے کتنے چراغ جل اٹھے
دیار دل میں تمنا کا اک شرر بھی نہیں

نہ جانے کیوں در زنداں بھی کانپ اٹھتا ہے
صدائے‌ فوقؔ اگر ایسی کارگر بھی نہیں