مری دنیا کا محور مختلف ہے
نہ اس میں آ یہ چکر مختلف ہے
مجھے آتش بجاں رکھا گیا ہے
مری مٹی کا جوہر مختلف ہے
مجھے لکھنے سے پہلے سوچ لینا
مرا کردار یکسر مختلف ہے
میں خوابوں سے زیادہ ٹوٹتی ہوں
کہ موجود و میسر مختلف ہے
ذرا سی موج پر حیران مت ہو
یہاں سارا سمندر مختلف ہے
کوئی مانوس خوشبو ساتھ اتری
لہو بولا یہ نشتر مختلف ہے
ستارہ ہے کوئی گل ہے کہ دل ہے
تری ٹھوکر میں پتھر مختلف ہے
ترے گیتوں کا مطلب اور ہے کچھ
ہمارا دھن سراسر مختلف ہے
سفر کا رنگ و رخ اب تک وہی ہے
منادی تھی کہ رہبر مختلف ہے
کسی جانب سے تو آئے بشارت
فضا بدلی ہے منظر مختلف ہے
غزل
مری دنیا کا محور مختلف ہے
حمیدہ شاہین