مری دن کے اجالوں پر نظر ہے
ستاروں کا کرشمہ رات بھر ہے
وہ ہنستا ہے مگر رخسار نم ہیں
یہ شاید پچھلے موسم کا اثر ہے
کسی کی عیب جوئی ہی کیا کر
ابھی کے دور میں یہ بھی ہنر ہے
یہاں کے سارے موسم ایک سے ہیں
یہی اس شہر کی تازہ خبر ہے
سپاہی جنگ سے کب لوٹتے ہیں
وہ کوئی اور ہے زندہ اگر ہے
اکیلا رات کو دن کر رہا ہوں
مری گردش میں شامل ہر بشر ہے
یہ جگنو کل کا سورج دیوتا ہے
مگر یہ تیرگی پر منحصر ہے
خدا تو ایک ہے لیکن سنا ہے
زمانہ ایک کے آگے صفر ہے
غزل
مری دن کے اجالوں پر نظر ہے
رسول ساقی