EN हिंदी
مری بلا سے زمانہ خلاف ہو جائے | شیح شیری
meri bala se zamana KHilaf ho jae

غزل

مری بلا سے زمانہ خلاف ہو جائے

جہانگیر نایاب

;

مری بلا سے زمانہ خلاف ہو جائے
میں چاہتا ہوں ترا ذہن صاف ہو جائے

یہ ابر پارہ نہیں دوست اشک گریہ ہے
یہ پتھروں پہ گرے تو شگاف ہو جائے

اگر ہے شوق بڑوں سے مکالمے کا تجھے
درست پہلے ترا شین قاف ہو جائے

رہے خیال کہ آئے نہ احترام میں فرق
اگر کسی سے ترا اختلاف ہو جائے

چراغ ہم نے محبت کے کر دیے روشن
ہوا کا خوف کسے ہے خلاف ہو جائے

اب اس طرح جو مجھے رد کرو گے ممکن ہے
تمہاری ضد میں مرا اعتراف ہو جائے