مری بلا سے زمانہ خلاف ہو جائے
میں چاہتا ہوں ترا ذہن صاف ہو جائے
یہ ابر پارہ نہیں دوست اشک گریہ ہے
یہ پتھروں پہ گرے تو شگاف ہو جائے
اگر ہے شوق بڑوں سے مکالمے کا تجھے
درست پہلے ترا شین قاف ہو جائے
رہے خیال کہ آئے نہ احترام میں فرق
اگر کسی سے ترا اختلاف ہو جائے
چراغ ہم نے محبت کے کر دیے روشن
ہوا کا خوف کسے ہے خلاف ہو جائے
اب اس طرح جو مجھے رد کرو گے ممکن ہے
تمہاری ضد میں مرا اعتراف ہو جائے

غزل
مری بلا سے زمانہ خلاف ہو جائے
جہانگیر نایاب