مری انا مرے دشمن کو تازیانہ ہے
اسی چراغ سے روشن غریب خانہ ہے
میں اک طرف ہوں کسی کنج کم نمائی میں
اور ایک سمت جہانداری زمانہ ہے
یہ طائروں کی قطاریں کدھر کو جاتی ہیں
نہ کوئی دام بچھا ہے کہیں نہ دانہ ہے
ابھی نہیں ہے مجھے مصلحت کی دھوپ کا خوف
ابھی تو سر پہ بغاوت کا شامیانہ ہے
مری غزل میں رجز کی ہے گھن گرج تو کیا
سخن وری بھی تو کار سپاہیانہ ہے
غزل
مری انا مرے دشمن کو تازیانہ ہے
اسعد بدایونی