مری آواز سن کر زندگی بیدار ہو جیسے
تری آواز کا سایہ افق کے پار ہو جیسے
طلوع صبح کا منظر مرے اندر ہے خوابیدہ
مرے اندر زمانوں کی حسیں تکرار ہو جیسے
میں ہر دیوار کے دونوں طرف یوں دیکھ لیتا ہوں
مرا ہی دوسرا حصہ پس دیوار ہو جیسے
شجر کی ٹہنی ٹہنی میں ہیں کتنے راز پوشیدہ
ہر اک جنگل کا ہر اک پیڑ پراسرار ہو جیسے
ابھی ہم گھومتے پھرتے ہیں بے سمتی کے جنگل میں
ہمارا زندگی بھر کا سفر بے کار ہو جیسے
میں گہرے پانیوں میں ڈوبتا انجمؔ جزیرہ ہوں
مری دنیا پرندوں کی حسیں چہکار ہو جیسے
غزل
مری آواز سن کر زندگی بیدار ہو جیسے
انجم نیازی