مری آنکھوں سے ہٹ کر کچھ نہیں ہے
تری دنیا کا منظر کچھ نہیں ہے
کوئی نیزہ کوئی سجدہ عطا کر
ابھی تک تو مرا سر کچھ نہیں ہے
ترے جغرافیہ کی دسترس میں
مری بستی مرا گھر کچھ نہیں ہے
یہی دو چار رستے ہیں یہاں کے
یہاں کھو جائیں تو ڈر کچھ نہیں ہے
خلائیں ہاتھ آئیں گی تمہارے
مری چٹکی سے باہر کچھ نہیں ہے

غزل
مری آنکھوں سے ہٹ کر کچھ نہیں ہے
حمید گوہر