مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا
سمندر کو سمندر میں سہارا کون دے گا
مرے چہرے کو چہرہ کب عنایت کر رہے ہو
تمہیں میرے سوا چہرہ تمہارا کون دے گا
مرے دریا نے اپنے ہی کنارے کاٹ ڈالے
بپھرتے پانیوں کو اب سہارا کون دے گا
بدن میں ایک صحرا جل رہا ہے بجھ رہا ہے
مرے دریاؤں کو پہلا اشارہ کون دے گا
محبت نیلا موسم بن کے آ جائے گی اک دن
گلابی تتلیوں کو پھر سہارا کون دے گا
غزل
مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا
افتخار قیصر