مری آہ بے اثر ہے میں اثر کہاں سے لاؤں
ترے پاس تک جو پہنچے وہ نظر کہاں سے لاؤں
مجھے بھول جانے والے تجھے کس طرح بھلاؤں
جسے درد راس آئے وہ جگر کہاں سے لاؤں
مرے رزق بندگی کو ترے در سے واسطہ ہے
جو جھکے بروئے کعبہ میں وہ سر کہاں سے لاؤں
مرے پاس دل کے ٹکڑے مرے پاس خوں کے آنسو
تو ہے سیم و زر کی دیوی تو میں زر کہاں سے لاؤں
شب غم کے یہ اندھیرے مرا ساتھ دے رہے ہیں
جو مٹائے ظلمتوں کو وہ سحر کہاں سے لاؤں
وہی برق جس نے گر کر مری زندگی جلا دی
میں اسی کو ڈھونڈتا ہوں وہ شرر کہاں سے لاؤں
مری زندگی ہے شیونؔ کچھ عجیب کشمکش میں
وہ اثر کو چاہتے ہیں میں اثر کہاں سے لاؤں

غزل
مری آہ بے اثر ہے میں اثر کہاں سے لاؤں
شیون بجنوری