مری آنکھوں میں آ دل میں اتر پیوند جاں ہو جا
میں بے نام و نشاں ہوں تو مرا نام و نشاں ہو جا
کبھی تو آخر شب پھول سا کھل میرے آنگن میں
کبھی میرے نواح جسم میں خوشبوئے جاں ہو جا
تو میرے دشت حرف و صوت کو برگ خموشی دے
تو میری آنکھ میں گم گشتۂ حیرت نشاں ہو جا
مگر یہ ذات کا بن باس کب تک بھوگنا ہوگا
کسی پربت کے پیچھے سے بلا، کچھ مہرباں ہو جا
مری راتوں کو قطرہ قطرہ شبنم بانٹنے والے
کبھی مانند دریا میری آنکھوں سے رواں ہو جا
وہ دیکھو کہکشاں سا اک جزیرہ منتظر اپنا
مجھے نیا بنا اپنی تو میرا بادباں ہو جا
غزل
مری آنکھوں میں آ دل میں اتر پیوند جاں ہو جا
احمد شناس