مرے وجود کو اس نے عجب کمال دیا
کہ مشت خاک تھا افلاک پر اچھال دیا
مکاں کو جھوٹے مکینوں سے پاک کرنا تھا
سو میں نے اس سے ہر امید کو نکال دیا
مری طلب میں تکلف بھی انکسار بھی تھا
وہ نکتہ سنج تھا سب میرے حسب حال دیا
بدل کے رکھ دیے ہجر و وصال کے مفہوم
مجھے تو اس نے بڑی کشمکش میں ڈال دیا
میں اس کی بندہ نوازی کے رمز جانتا ہوں
کہ رزق شوق دیا لقمۂ حلال دیا
مرے خدا نے عطا کی مجھے زباں اور پھر
زباں کو مرتبۂ جرأت سوال دیا
غزل
مرے وجود کو اس نے عجب کمال دیا
سرشار صدیقی