EN हिंदी
مرے وجود کی گہرائیوں میں رہتا ہے | شیح شیری
mere wajud ki gahraiyon mein rahta hai

غزل

مرے وجود کی گہرائیوں میں رہتا ہے

قمر عباس قمر

;

مرے وجود کی گہرائیوں میں رہتا ہے
وہ ایک شخص جو تنہائیوں میں رہتا ہے

قریب جاں وہی آتا ہے دستکیں دینے
جو میرے جسم کی پرچھائیوں میں رہتا ہے

مرا مکان بھی وحشت کدہ بنا ہوا ہے
عجب تضاد مرے بھائیوں میں رہتا ہے

وہ جھوٹ اتنی صفائی کے ساتھ بولتا ہے
کہ اس کا ذکر بھی سچائیوں میں رہتا ہے

اک اشتعال درون وجود انسانی
دل فگار کی پہنائیوں میں رہتا ہے

ملامت شب ہجراں کے بعد تیرا قمرؔ
جہاں بھی جاتا ہے رسوائیوں میں رہتا ہے