مرے وجود کی گہرائیوں میں رہتا ہے
وہ ایک شخص جو تنہائیوں میں رہتا ہے
قریب جاں وہی آتا ہے دستکیں دینے
جو میرے جسم کی پرچھائیوں میں رہتا ہے
مرا مکان بھی وحشت کدہ بنا ہوا ہے
عجب تضاد مرے بھائیوں میں رہتا ہے
وہ جھوٹ اتنی صفائی کے ساتھ بولتا ہے
کہ اس کا ذکر بھی سچائیوں میں رہتا ہے
اک اشتعال درون وجود انسانی
دل فگار کی پہنائیوں میں رہتا ہے
ملامت شب ہجراں کے بعد تیرا قمرؔ
جہاں بھی جاتا ہے رسوائیوں میں رہتا ہے

غزل
مرے وجود کی گہرائیوں میں رہتا ہے
قمر عباس قمر