مرے وجود ابھی ناتواں نہیں ہونا
پھر اس کے بعد یہ موسم جواں نہیں ہونا
کسے خبر تھی کہ محشر کا ہوگا یہ بھی رنگ
زمیں کا ہونا مگر آسماں نہیں ہونا
ہمیں خبر ہے کہ وحشت ٹھکانے لگنی ہے
ہمارا جوش ابھی رائیگاں نہیں ہونا
وجود اپنا ہے اور آپ طے کریں گے ہم
کہاں پہ ہونا ہے ہم کو کہاں نہیں ہونا
اب اس کے بعد سکت کچھ نہیں رہی مجھ میں
اب اس سے آگے کا قصہ بیاں نہیں ہونا
ہماری بستی کا دکھ ہے ہمیں سے پوچھو میاں
کہ قبریں ہونی مگر آستاں نہیں ہونا
مقام شکر ہے میرے لئے کہ میرے مرید
یہ تیرا آج مرا قدرداں نہیں ہونا
میں خاندان کا سب سے بڑا مداری ہوں
تماشہ ہوتا رہے گا یہاں نہیں ہونا
بس اتنی دوری میسر رہے گی دونوں کو
کہ فاصلہ بھی کوئی درمیاں نہیں ہونا
عجب عذاب تھا کہ اپنے شہر ارماں میں
ہمارے واسطے جائے اماں نہیں ہونا
یہ ظلم ہے کہ منادی ہو امتحانوں کی
پھر اس کے بعد کوئی امتحاں نہیں ہونا
عجب سپردگیٔ جاں کا مرحلہ تھا علیؔ
ہمارے ہونے کا ہم کو گماں نہیں ہونا
غزل
مرے وجود ابھی ناتواں نہیں ہونا
لیاقت جعفری