EN हिंदी
مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا | شیح شیری
mere thake hue shanon se bojh utar to gaya

غزل

مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا

معراج فیض آبادی

;

مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا
بہت طویل تھا یہ دن مگر گزر تو گیا

لگا کے داؤ پہ سانسوں کی آخری پونجی
وہ مطمئن ہے چلو ہارنے کا ڈر تو گیا

کسی گناہ کی پرچھائیاں تھیں چہرے پر
سمجھ نہ پایا مگر آئنے سے ڈر تو گیا

یہ اور بات کہ کاندھوں پہ لے گئے ہیں اسے
کسی بہانے سے دیوانہ آج گھر تو گیا