مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا
بہت طویل تھا یہ دن مگر گزر تو گیا
لگا کے داؤ پہ سانسوں کی آخری پونجی
وہ مطمئن ہے چلو ہارنے کا ڈر تو گیا
کسی گناہ کی پرچھائیاں تھیں چہرے پر
سمجھ نہ پایا مگر آئنے سے ڈر تو گیا
یہ اور بات کہ کاندھوں پہ لے گئے ہیں اسے
کسی بہانے سے دیوانہ آج گھر تو گیا

غزل
مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا
معراج فیض آبادی