مرے سلوک کی قیمت یہیں ادا کر دے
مجھے گناہ کی لذت سے آشنا کر دے
عبور کر نہ سکا بے حسی کی چٹانیں
مرے ضمیر کو مردانگی عطا کر دے
میں مصلحت کے تقاضوں کو کر سکوں پورا
مری انا کو مرے پیٹ سے جدا کر دے
تمام خواہشیں میری لباس نوچ چکیں
تو اب لہو کا مزیدار ذائقہ کر دے
میں جذب و بست کی منزل میں قید ہوں کب سے
مرے خدا تو فراری کا راستہ کر دے
غزل
مرے سلوک کی قیمت یہیں ادا کر دے
خالد غنی